سلیکون ویلی کی رونق واپس لوٹ آئی ہے۔ شاہراہ ۱۰۱ سے متصل سلسلہ دفاتر ایک بار پھر امید افزا کاروباری آغاز کی علامتوں سے مزین ہو چکا ہے۔ کرایے آسمان کو چھو رہے ہیں کیوں کہ لیک تاہو جیسے تفریحی مقام پر پُرکشش ویکیشن ہوم کی طلب دولت کی ریل پیل کی علامت ہے۔ خلیجی علاقہ اُس نیم موصل صناعت، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کمپنیوں کی جنم بھومی ہے، جنھوں نے اپنے دورِ بیداری میں نشو نما پائی ہے۔ ان کمپنیو ں کےافسوں گروں نے بہت سے ایسے معجزات فراہم کیے ہیں جنھوں نے دنیا کو مستقبل کے لیے موزوں تر محسوس کرا دیا، یعنی ٹچ اسکرین موبائل سے لے کر بڑی لائبریریوں کی فوری تلاش اور ڈرون طیاروں کو ہزاروں میل تک اڑا لے جانے کی قدرت و صلاحیت تک۔ ۲۰۱۰ کے بعد سے ان کی تجارتی سرگرمیوں میں نئی بیداری کی لہر اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ ترقی کا سفر جاری ہے۔
اس لیے سلیکون ویلی کے بعض لوگوں کا یہ سمجھنا غیر متوقع ہو سکتا ہے کہ یہ مقام بے رونق و ساکت ہو چکا ہے، اور اختراع و ایجاد کی رفتار کئی عشروں سے سست روی کا شکار چلی آرہی ہے۔ پیٹر تھیل، جو کہ پے پال PayPal کے موسس اور فیس بک میں باہر سے سرمایہ کرنے والے پہلے شخص ہیں، کہتے ہیں کہ امریکا میں اختراع کا عمل ‘شدید مشکلات سے دوچار ہے یا پھر مردہ ہو چکا ہے’۔ ہر طرح کے میدانوں سے تعلق رکھنے والے انجینئر اسی قسم کے مایوسی بھرے احساسات ظاہر کرتے ہیں۔ اور ماہرینِ معاشیات کا ایک مختصر مگر رو بہ فزوں گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ آج کی اختراعات کے معاشی اثرات ماضی میں پڑنے والے اثرات کے مقابلے میں بے جان ہو سکتے ہیں۔
[ … ]
تمام ہی میدانوں میں سستی پروسیسنگ پاور سے استحکام پانے والی اختراعات زقند لگا رہی ہیں۔ کمپیوٹر فطری زبانوں کو سمجھنا شروع کر رہے ہیں۔ لوگ محض جسم کی حرکت سے ویڈیو گیم کو کنٹرول کر رہے ہیں — یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کا استعمال شاید جلد ہی تجارتی دنیا میں نظر آنے لگے۔ سہ ابعادی پرنٹنگ اس لائق ہو گئی ہے کہ تیزی سے پیچیدہ ہوتی ہوئی اشیاء کی بڑی تعداد کو وجود میں لا سکے اور ممکن ہے کہ جلد ہی یہ ٹیکنالوجی انسانی خلیاتی ریشوں اور دیگر عضویاتی مواد کی طرف بھی متوجہ ہو جائے۔
ممکن ہے اختراعات کے سلسلے میں مایوسی کا شکار افراد اس مفروضے کو ‘‘خیالی پلاؤ’’ کہہ کر رد کر دیں، لیکن یہ خیال کہ ٹیکنالوجی سے آراستہ ترقی مد وجزر کے درمیان رہنے کے بجائے یا تو لازمی طور پر بلا انقطاع چلتی رہے گی یا بتدریج رو بہ زوال ہو جائے گی، تاریخ سے میل نہیں کھاتا۔ شیکاگو یونیورسٹی کے چاڈ سیورسن یہ نکتہ پیش کرتے ہیں کہ الیکٹریفیکیشن کے عہد میں پیداواری صلاحیت میں اضافہ عقدوں بھرا تھا۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں اہم برقیاتی اختراعات کے ایک دور میں رفتارِ نمو سست تھی، پھر اس کے بعد اس میں اچھال آیا۔